MINOR SIGN OF THE LAST HOUR
March 20, 202140 𝑹𝒂𝒃𝒃𝒂𝒏𝒂 𝑫𝒖𝒂𝒔
March 23, 2021
It Is Allow to Wear Taweez In Islam Or Not Full Details From Hadith
1st Question
کیا تعویز کا باندھنا بدعت ہے چاہے وو قرآن کی آیات ہو یا اور کچھ کیا نبی (سو )نے کبھی کسی کو تعویز دی ہے
رقیہ اور تعویذ تین شرطوں گے ساتھ جائز ہے: (۱) یہ کہ وہ آیاتِ قرآنیہ اسمائے حسنیٰ وغیرہ پر مشتمل ہو۔ (۲) عربی یا اس کے علاوہ ایسی زبان میں ہو جو معلوم المراد ہو۔ (۳) یہ عقیدہ ہو کہ یہ تعویذ موٴثر بالذات نہیں ہے (اس کی حیثیت صرف دوا کی ہے) موٴثر بالذات صرف اللہ رب العزت ہیں۔ وقال ابن حجر: وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ وأن یعتقد أن الرقیة لا تؤثر بذاتہا بل بذات اللہ تعالی (فتح الباري: الطب والرقی بالقرآن والمعوذات: ۵۷۳۵) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً ایسے رقیے اور تعویذ کی اجازت دی ہے جس میں شرک نہ ہو: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ ، قَالَ: کُنَّا نَرْقِی فِی الْجَاہِلِیَّةِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ تَرَی فِی ذَلِکَ؟ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَیَّ رُقَاکُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ شرکٌ، رواہ مسلم (مشکاة: ۲/۳۸۸) نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کلمات لکھ کر دیے تھے جس کی وجہ سے ان کو پریشان کرنے والا شیطان ہلاک ہوگیا۔ وأخرج البیہقي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: فَقَالَ لِعَلِیِّ رضي اللہ عنہ اکْتُبْ: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَی مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَّارِ وَالصَّالِحِینَ، إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ․ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَةً، فَإِنْ تَکُ عَاشِقًا مُولَعًا، أَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا أَوْ رَاغِبًا حَقًّا أَوْ مُبْطِلًا، ہَذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ، إِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ، اتْرُکُوا صَاحِبَ کِتَابِی ہَذَا، وَانْطَلِقُوا إِلَی عَبَدَةِ الْأَصْنَامِ، وَإِلَی مَنْ یَزْعُمُ أَنَّ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ یُغْلَبُونَ، حم لَا یُنْصَرُونَ، حم عسق تُفَرِّقَ أَعْدَاء َ اللہِ، وَبَلَغَتْ حُجَّةُ اللہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ․ (دلائل النبوة ما یذکر من حرز أبی دجانة: ۷/۱۱۸) ایک اورحدیث میں ہے: عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِیہِ، قَال: سَافَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ․․․وَأَتَتْہُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنِی ہَذَا بِہِ لَمَمٌ مُنْذُ سَبْعِ سِنِینَ یَأْخُذُہُ کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَدْنِیہِ فَأَدْنَتْہُ مِنْہُ فَتَفَلَ فِی فِیہِ وَقَالَ: اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّہِ أَنَا رَسُولُ اللَّہِ․ (رواہ الحاکم في المستدرک) اس کے علاوہ صحابہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ وغیرہ اور ان کے علاوہ تابعین میں حضرت عطا وغیرہ اس کے جواز کے قائل تھے، اور آج بھی اس پر لوگوں کا عمل ہے: عن عمرو بن شعیب، عن أبیہ، عن جدہ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ بکلمات اللہ التامة، من غضبہ وشر عبادہ، ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون․ وکان عبد اللہ بن عمر یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ․ (أبوداوٴد: ۳۸۹۳، والترمذي: ۳۵۲۸ وقال: حسن غریب، اور علامہ شامی لکھتے ہیں: اخْتُلِفَ فِی الِاسْتِشْفَاء ِ بِالْقُرْآنِ بِأَنْ یُقْرَأَ عَلَی الْمَرِیضِ أَوْ الْمَلْدُوغِ الْفَاتِحَةُ، أَوْ یُکْتَبَ فِی وَرَقٍ وَیُعَلَّقَ عَلَیْہِ أَوْ فِی طَسْتٍ وَیُغَسَّلَ وَیُسْقَی. وَعَنْ النَّبِیِّ -صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- أَنَّہُ کَانَ یُعَوِّذُ نَفْسَہُ قَالَ – رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ -: وَعَلَی الْجَوَازِ عَمَلُ النَّاسِ الْیَوْمَ، وَبِہِ وَرَدَتْ الْآثَارُ․ (شامي: ۹/۵۲۳) واضح رہے کہ تعویذ میں جس طرح پڑھ کر دم کرنا جائز ہے اسی طرح قرآنی آیات وغیرہ کو کسی کاغذ پر لکھ کر اس کو باندھنا بھی جائز ہے، علامہ سیوطی تحریر فرماتے ہیں: وأما قول ابن العربي: السُّنة في الأسماء والقرآن الذکر دون التعلیق فممنوع (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں تمیمہ کو لٹکانے پر شرک کا حکم مذکور ہے، جیسا کہ امام اسیوطی کی جامع صغیر میں ہے: من تعلق شیئا وکل إلیہ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: من علق ودعة فلا ودع اللہ ومن علق تمیمة فلا تمم اللہ لہ (فیض القدیر: ۶/۱۸۱) تو یہ اس صورت پر محمول ہیں جب کہ اسی تعویذ کو نافع وضار سمجھا جائے، جیسا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے، یا ان سے مراد ایسے تعاویذ ہیں جن میں الفاظ شرکیہ یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معانی معلوم نہ ہوں، ان حدیثوں کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں: أو المراد من علق تمیمة من تمائم الجاہلیة یظن أنہا تدفع أو تنفع فإن ذلک حرام والحرام لا دواء فیہ وکذا لو جہل معناہا وإن تجرد عن الاعتقاد المذکور فإن من علق شیئا من أسماء اللہ الصریحة فہو جائز بل مطلوب محبوب فإن من وکل إلی أسماء اللہ أخذ اللہ بیدہ․ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
2nd Question
قرآن کے بارے مے جو یہ مشہور ہے کی اس کی فلاں آیت پڑھنے سے یہ کام ہو جاتا ہے ، فلاں سورت سے یہ فائدہ ہوتا ہے ، اس آیت یا سورت کو پڑھنے سے سر کا درد دور ہو جاتا ہے ، وغیرہ ۔ اس میں کتنی سچائی ہے ؟ سورتوں ور آیتوں کے خواص کس طرح ثابت ہیں ؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی صحابی نے اس طرح کا کوئی عمل کبھی کیا ہے؟
بعض سورتوں کے خواص توخود احادیث میں مذکور ہیں،مثلاً: سورہٴ بقرہ کی تلاوت جس گھر میں ہو اس میں شیطان کا داخل نہ ہونا، اس سورت کا باعث خیر وبرکت ہونا، آیت الکرسی پڑھنے پر اللہ کا محافظ ہونا اور شیطان کا اس کے قریب نہ آنا، سورہٴ بقرہ کا آخر تلاوت کرنے پر شریر جن وانس سے محفوظ رہنا، سورہٴ کہف کی اول دس آیتوں کو یاد کرنے والے کا دجال سے مامون رہنا، سورہٴ اخلاص اور معوذتین پڑھ کر ہاتھ پر پھونک مارکر پورے بدن پر پھرنے اور اس عمل کو تین مرتبہ کرنا،اگر کوئی سورہٴ مومن کی ابتدا سے إلیہ المصیر تک اور آیت الکرسی صبح پڑھے تو شام تک اور شام کے وقت پڑھے تو صبح تک اس کا محفوظ رہنا، سورہٴ ملک پڑھنے والے کا عذاب قبر سے مامون رہنا اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سونے سے پہلے سورہٴ (سجدہ) اور سورہٴ ملک کے پڑھنے کا اہتمام فرمانا، سورہٴ فاتحہ میں ہربلا سے شفا ہونا، سورہٴ یٰسین پڑھنے والے کی ضرورتوں کا پورا ہونا، سورہٴ واقعہ کی تلاوت کرنے والوں کا فاقہ سے محفوظ رہنا وغیرہ اس کے علاوہ ادعیہ واذکار کا مختلف مقاصد کے لیے پڑھنے کا احادیث سے ثبوت ملتا ہے، مثلاً: لاحول ولا قوة الا باللہ میں ننانوے امراض کی دوا ہونا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصیبت کے وقت لا الٰہ الا اللہ العظیم الحلیم لا الٰہ الا اللہ یا رب رب العرش العظیم لا الٰہ الا ہو رب السماوات ورب الارض ورب العرش الکریم پڑھنا، کسی شخص کا کسی جگہ آنے کی صورت میں اعوذ بکلمات اللہ التامات من شر ما خلق پڑھ لینے پر کسی چیز کا اس کو تکلیف نہ پہنچانا، غموں کی کثرت والے شخص کا یہ دعا ”اللہم انی عبدک وابن عبدک وابن أمتک في قبضتک ناصیتي بیدک ماضٍ في حکمک عدل في قضائک أسلک بکل اسم ہو لک سمیت بہ نفسک أو أنزلتہ في کتابک أوعلمتہ أحدًا من خلقک أو ألہمت عبادک أو استأثرت بہ في مکنون الغیب عندک أن تجعل القرآن ربیع قلبی وجلاء ہمي وغمی“ پڑھنے پر غموں کا دور ہوجانا، گھبراہٹ کے وقت ”أعوذ بکلمات اللہ التامات من غضبہ وعقابہ ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضورن“ پڑھنا، کعب بن احبار رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ اگر میں یہ ”کلمات“ نہ پڑھتا تو یہود مجھے گدھا بنادیتے، ان سے پوچھا گیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا ”أعوذ باللہ العظیم الذي لیس شيء أعظم منہ وبکلمات اللہ التامات التي لا یجاوزہن برّ ولا فاجر وبأسماء اللہ الحسنی ما علمت منہا وما لم أعلم من شر ما خلق وذرأوبرأ“ قرض کی ادائیگی کے لیے ”اللہم أکفني بحلالک عن حرامک وأغنني بفضلک عم سواک“ پڑھنا وغیرہ اس کے علاوہ بھی احادیث وآثار میں مختلف مقاصد کے لیے مختلف ادعیہ واذکار کا پڑھنا ثابت ہے۔ حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا دردِ سر کے موقع پر اپنے ہاتھ کو اپنے سر پر رکھ کر یہ دعا پڑھا کرتی تھیں ”بذنبي وما یغفرہ اللہ أکثر“ قال في الدر المنثور: وأخرج ابن سعد عن ابن أبي ملیکة أن أسماء بنت أبي بکر الصدیق کانت تصدع فتضع یدہا علی رأسہا وتقول: بذنبي وما یغفرہ اللہ أکثر“ (الدر المنثور: ۱۰/۶ بحوالہ الیواقیت الغالیہ: ۱/ ۲۶۷) قرآن شریف کی آیت وننزل من القرآن ما ہو شفاء ورحمة للموٴمنین کی تفسیر میں بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ قرآن جس طرح مراضِ باطنہ کی شفاء ہے امراضِ ظاہرہ کی بھی شفا ہے کہ آیاتِ قرآن پڑھ کر مریض پر دم کرنا، تعویذ لکھ کر گلے میں ڈالنا امراضِ ظاہرہ کے لیے بھی شفا ہوتا ہے (معارف القرآن: ۵/ ۵۲۲) نیز مسلم شریف کی ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً ایسے رقیہ وتعویذ کی اجازت دی جس میں شرک نہ ہو، اسی وجہ سے علماء کا تین شرطوں کے ساتھ رقیہ کے جواز پر اجماع ہے: (۱) یہ کہ وہ آیات قرآنیہ اسماء حسنی وغیرہ پر مشتمل ہو (۲) عربی یا اس کے علاوہ ایسی زبان میں ہو جس کے معانی معلوم اوردرست ہوں (۳) یہ عقیدہ ہو کہ تعویذ موٴثر بالذات نہیں (اس کی حیثیت دوا کی سی ہے) موٴثر بالذات صرف اللہ رب العزت ہیں (فتح الباری) حاصل یہ ہے کہ تعویذ اور رقیہ کا ثبوت ہے اور مذکورہ بالا تین شرطوں کے ساتھ اس کی اجازت ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
) صحیح مسلم ج 1 ص 264(کہ تم لوگ اپنے دنیاوی امور کو اپنے تجربات کی بنیاد پر بہتر سمجھتے ہو۔اس حدیث مبارک میں ثابت ہو گیا کہ دنیاوی امور کی مکمل تفصیلات کا ادلہ اربعہ میں مذکور ہونا ضروری نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ کتاب وسنت کی صحیح تفسیر و تشریح اسلاف اور خدائی انعام یافتہ طبقات کامتوارث عمل ہے ہر وہ تفسیر و تشریح جو اللہ تعالی کے انعام یافتہ بندوں کی تشریح و عمل کے خلاف ہو وہ قابل تردید ہے۔دم اور تعویذ وغیرہ کا جواز قرآن و سنت سے ثابت ہے
۔1: قرآن پاک میں ہےو ننزل من القرآن ما ھوشفاء ورحمۃللمومنین۔)سورۃ بنی اسرائیل (اور ہم نے قرآن نازل کی جو کہ مومنین کے لیے سراپا شفا اور رحمت ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بہترین دوا قرآن ہے۔) سنن ابن ماجہ (دم کرنا اورتعویذات لکھ کر استعمال کرانا امت کے تواتر سے ثابت ہے1: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ تعویذات لکھا کرتے تھے۔)مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 75 ابوداود ج 2 ص 543(2: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بچے کی پیدائش کے لیے دو آیات قرآنی لکھ کر دیتے تھے کہ ان کو دھو کر مریضہ کو پلا دو)مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60(بلکہ طبرانی شریف میں اس حدیث کے بعض الفاظ یوں بھی ملتے ہیں کہ کچھ پانی اس کے پیٹ اور منہ پر چھڑک دو۔3: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی اس کی قائل تھیں کہ پانی میں تعویذ ڈال کر وہ پانی مریض پر چھڑکا جائے۔) مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص60 (4: حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ قرآنی آیات کو لکھ کر ڈرنے والے مریض کو پلائی جائیں۔) مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 74(5: حضرت سعید بن مسیب کے ہاں چمڑے میں مڑھ کر تعویذ پہننا جائز ہے۔) مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 74(6: حجاج بن اسود کہتے ہیں میں نے مکہ مکرمہ کے مفتی حضرت عطاء سے اس بارے میں پوچھا تو وہ فرمانے لگے ہم نے تو نہیں سنا کہ کوئی اس کام کو مکروہ کہتا ہو۔ ہاں تمہارے بعض عراقی مکروہ کہتے ہیں۔) مصنف ابن ابی شیبہ ج12 ص 60(7: امام باقر رحمہ اللہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ قران کریم کی آیات چمڑے پر لکھ کر لٹکایا جائے۔) مصنف ابن ابی شیبہ ج 12 ص 74(8: خود غیر مقلد علماء میں سے محترم داؤد غزنوی، سید ابو بکر غزنوی ، نواب صدیق حسن خان ، مفتی ابوالبرکات احمد ، مولانا ثناء اللہ امرتسری ، عبدالرحمان مبارکپوری، حکیم صادق سیالکوٹی، ، میاں نذیر حسین دہلوی سمیت غزنوی ، لکھوی ، گیلانی ، قلعوی اور روپڑی خاندان کے نامی گرامی حضرات تعویزات و عملیات کے نہ صرف جواز کے قائل تھے بلکہ خود بھی بڑے عامل تھے۔ چنانچہ سید نذیر حسین دہلوی سے سوال ہوا کہ گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے یا نہیں ؟جواب میں فرماتے ہیں:تعویذ نوشتہ در گلو انداختن مضائقہ ندارد۔ مگر اشہر و اصح جواز است۔) فتاویٰ نذیریہ ج3 ص 298(لکھے ہوئے تعویذ کو گلے میں لٹکانا درست ہے کوئی حرج کی بات نہیں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ جائز ہے۔اس فتویٰ کی تائید غیر مقلدین کے محدث مولانا عبدالرحمان مبارکپوی لکھتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بالغ لڑکوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتلائے ہوئے کلمات یاد کراتے تھے اور نابالغ لڑکوں کے لیے ان کلمات کو ایک کاغذ پر لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔ )ابوداود ترمذی(مزید لکھتے ہیں کہ شراح حدیث اس روایت کے تحت لکھتے ہیں کہ جس تعویذ میں اللہ کا نام لکھا ہوا ہو یا قرآن کی کوئی آیت یا کوئی دعا ماثورہ لکھی ہوئی ہو ایسے تعویذ کا کا بالغ لڑکوں کے گلے میں لٹکانا درست ہے۔) فتاویٰ نذیریہ ج 3 ص
299(تمیمہ والی حدیث کا صحیح مطلب:منکرین تعویذ غیر مقلدین جو حدیث پیش کرتے ہیں اس میں تمیمہ سے منع کیا گیا ہے یہ زمانہ جاہلیت میں دعا اور دوا کے علاوہ نقصان سے بچنے کا ایک مزعومہ طریقہ تھا۔ تمیمہ در حقیقت ایک منکا ہوتا تھا جس کو مریض کے گلے میں لٹکایا جاتا تھا اور وہ لوگ تمیمہ کو نقصان سے بچنے کے لیے مستقل موثر بالذات اور علت تامہ قرار دیتے تھے۔ جو کہ شرک کے ضمن میں آتا ہے اس لیے اسلام نے اس سے منع کر دیا۔ تعویذات کو تمیمہ قرار دے کر تمیمہ کا حکم لگانا درست نہیں۔ یہ حدیث پاک کی ایسی غلط تشریح ہے جو مزاج نبوت اور اسلاف کی تعبیرات سے میل نہیں کھاتی۔ اس لیے اس تشریح کا سرے سے کوئی اعتبار ہی نہیں۔معلوم ہوا کہ دم ، جھاڑ ، تعویذ کو شرک کہنا کم علمی اور جہالت ہے۔