Hashim, Mutalib, And Abul Mutalib Intresting Introduction.
رسول اللہ ﷺ کے شجرۂ نسب میں جو نام آئے ہیں ان میں سے متعدد شخصیات تاریخی اعتبار سے کافی شہرت کی حامل ہیں، لیکن چونکہ آپ ﷺ کی نسبت عام طور پر خاندانِ بنوہاشم کی طرف کی جاتی ہے، لہٰذ اس سلسلۂ نسب کے تفصیلی تذکرے کا آغاز بھی عموماً ’’ہاشم‘‘ سے ہی کیا جاتا ہے۔
ہاشم اپنے باپ عبدمناف کی وفات کے بعد قبیلے کے سردار منتخب ہوئے اور متولیٔ کعبہ بھی مقرر ہوئے، یوں کعبۃ اللہ کی خدمت و نگرانی نیز حُجاج و زُوّار کی خدمت و میزبانی کا شرف انہیں حاصل ہوا، گویا دنیاوی طور پر قبیلۂ قریش کی سرداری و سربراہی کے ساتھ ساتھ دینی رہنمائی کا اعزاز بھی انہی کے پاس تھا۔
ہاشم کی وفات کے بعد قبیلے کی سرداری نیز کعبہ مشرفہ کی خدمت و نگرانی کی ذمہ داری ہاشم کی وصیت کے مطابق ان کے بھائی مُطّلِب بن عبدمناف کے حصہ میں آئی جنہوں نے کچھ عرصہ اس ذمہ داری کو نبھانے کے بعد اپنے بھائی ہاشم کے اس احسان کابدلہ چکانے کی غرض سے یہ فیصلہ کیا کہ اپنی اولاد میں سے کسی کو اپنا جانشیں مقرر کرنے کی بجائے ہاشم کی اولاد کو یہ شرف لوٹا دیا جائے۔
ہاشم کی ملکِ شام کی طرف تجارت کی غرض سے بکثرت آمد و رفت رہتی تھی اور اس سفر کا راستہ یثرب یعنی مدینہ سے گذرتا تھا جہاں اکثر دورانِ سفر ہاشم کا قیام بھی رہتا تھا، جس کی وجہ سے وہاں ان کی اچھی خاصی شناسائی بھی تھی، ایسے ہی ایک سفرکے موقع پر مدینہ میں قیام کے دوران ہاشم نے وہاں مدینہ کے ایک معروف و معزز خاندان ’’ بنونجار‘‘ کی ایک خاتون سلمیٰ بنت عمروسے شادی کرلی تھی، اور اس شادی کے بعد جلد ہی وہ اپنی منزل یعنی ملکِ شام کی طرف روانہ ہوگئے، جہاں فلسطین کے علاقے ’’غزہ‘‘ میں پہنچ کر بیمار پڑگئے اور پھر وہیں ان کی وفات ہوگئی۔
ادھر ان کی وفات کے بعد مدینہ میں ان کے بیٹے کی ولادت ہوئی جس کا نام ان کی ماں نے شیبہ رکھا (انہیں شیبۃ الحمد بھی کہا جاتا تھا)۔ ہاشم کی اس شادی اور پھر اس بیٹے کی پیدائش کے بارے میں مکہ میں ہاشم کے بھائی مُطّلِب کے سوا کسی کو علم نہیں تھا، البتہ مطلب نے بھی کبھی اپنے اس بھتیجے کو دیکھا نہیں تھا۔
اب مُطّلِب کے دل میں بھائی کیلئے احسان مندی کے جذبے کے تحت جب یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ بھائی کے احسان کا بدلہ چکائیں (کیونکہ بھائی نے انہیں اپنا جانشیں مقرر کیا تھا) تو اس مقصد کیلئے انہوں نے سوچا کہ بھائی کے اس بیٹے کو اپنا جانشیں مقرر کریں جو کہ پیدائشی طور پر ہی باپ کی شفقت و محبت سے محروم ہے اور مکہ سے بہت دور گمنامی کی زندگی بسر کررہا ہے۔ چنانچہ وہ ایک روز اس کی تلاش میں مدینہ جا پہنچے، بھتیجے سے ملاقات ہوئی، اپنے فوت شدہ پیارے بھائی کی اس یادگار پر جب پہلی نگاہ پڑی تو مُطّلِب کی آنکھیں بھرآئیں، اور دیر تک انہیں گلے لگائے رکھا، اس کے بعد آمد کا مقصد بیان کیا اور ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔ بھتیجے نے پہلے تو انکار کیا، لیکن جب مُطّلِب نے زیادہ اصرار کیا تو بھتیجے نے کہا کہ میری ماں سے پوچھ لیجئے، میرے بارے میں وہ جو فیصلہ کریں گی وہی آخری فیصلہ ہوگا۔ نوجوان کے دل میں ماں کیلئے اتنی اہمیت، یہ سوچ کر مُطلب کے دل میں بھتیجے کی قدر مزید بڑھ گئی اور اس کی ماں سے اس بارے میں بات کی، لیکن وہ اپنے لختِ جگر کو نظروں سے دور کرنے اور پردیس بھیج دینے پر کسی صورت آمادہ نہ ہوئیں۔ مُطّلِب نے منت سماجت کرتے ہوئے کہا کہ تمہارا بیٹا کوئی پردیس نہیں جارہا، بلکہ وہ تو اپنے ہی آباؤاجداد کے شہر ’’مکہ‘‘ جا رہا ہے، جہاں یہ کسی اجنبی یا پردیسی کی طرح کسمپرسی کی زندگی نہیں بلکہ اپنے آباؤاجداد کی طرح شان و شوکت کی زندگی بسر کرے گا اور اپنے باپ کی طرح اپنی قوم کا سردار ہوگا، اس پر بھی شیبہ کی ماں راضی نہ ہوئی، تب مُطّلب نے کہا کہ اس سرداری و سربراہی سے بھی بڑھ کر یہ کہ تمہارا یہ بیٹا وہاں اللہ کے گھر کا متولی ہوگا، اس سے بڑا اور کیا شرف ہوسکتا ہے؟ تب شیبہ کی ماں اسے اس کے چچا کے ہمراہ مکہ بھیجنے پر رضامند ہوگئی، یوں مُطّلِب اپنے فوت شدہ بھائی ہاشم کی اس نشانی کو ہمراہ لئے ہوئے مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوگئے۔
یہ سفرطے کرنے کے بعد مُطّلِب جب اپنے بھتیجے شیبہ کو لئے ہوئے مکہ پہنچے تو لوگوں نے دیکھا کہ ان کے سردار کے ہمراہ اونٹ پر ایک نوجوان بھی سوار ہے، تب وہ کہنے لگے کہ دیکھو ہمارا سردار اپنے لئے ایک نیا غلام خرید لایا ہے۔ جس پر مُطّلِب نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی غلام نہیں، یہ میرا بھتیجا ہے، اور یہی تمہارا مستقبل کا سردار بھی ہے، کیونکہ میں نے اسے اپنا جانشیں مقرر کیا ہے۔
اس کے بعد مکہ میں مُطّلِب نے اپنے اس بھتیجے کے ساتھ ہمیشہ اس قدر شفقت و محبت اور لاڈ پیار کا معاملہ روا رکھا کہ چچا کے اس حسنِ سلوک اور شفقت و مہربانی سے متأثر ہوکر بھتیجے نے زندگی بھر خود کو اپنے اصل نام (شیبہ) کی بجائے ’’عبدالمطلب‘‘ ہی کہلانا پسند کیا۔
یہی عبدالمطلب ہمارے پیارے نبی ﷺ کے دادا محترم ہیں، اور انہوں نے ہی ہمارے نبی ﷺ کا اسمِ گرامی ’’محمد‘‘ تجویز کیا تھا۔
مُطّلِب کی وفات کے بعد ان کے یہ بھتیجے عبدالمطلب قبیلے کے سردار اور متولیٔ کعبہ مقرر ہوئے، یہ بہت ہی وجیہ اور باوقار انسان تھے، مکہ میں انہیں انتہائی عزت و احترام اور قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔