The Marriage of the Prophet Muhammad s.a.w Parents

Hope In Allah’s Mercy Ibn Taymiyyah r.a Said
December 24, 2018
Benefits Of Surah Mulk
December 25, 2018

The Marriage of the Prophet Muhammad s.a.w Parents

The Marriage of the Prophet Muhammad s.a.w Parents

 

قبیلہ قریش کے سردار عبدالمطلب کے لاڈلے بیٹے، ان کی آنکھوں کے نور اور دل کے سرور یعنی عبداللہ جب سو اونٹوں کی قربانی کے عوض قربان ہونے سے بچ گئے اور زندگی کا سفر رواں دواں ہوگیا تو عبدالمطلب کو اپنے اس خوبصورت و خوب سیرت بیٹے کی شادی کی فکر دامن گیر ہوئی۔

قبیلۂ قریش کی جو متعدد شاخیں اور پھر ان میں جو بہت سے خاندان تھے ان میں ’’بنی زہرہ‘‘ کے نام سے ایک بڑا معزز خاندان تھا، اس خاندان کے سربراہ کا نام ’’وہب‘‘ تھا، وہب اپنے حسب نسب خاندان کی سربراہی و سرداری کے علاوہ شرافت و دیانت اور اعلیٰ اخلاق و کردار کے لحاظ سے بھی بہت معروف تھے اور معاشرے میں ان کی بڑی قدر و منزلت تھی۔

 

وہب کی ایک نہایت چہیتی اور لاڈلی بیٹی تھی جو کہ عصمت و عفت اور شرافت و نجابت میں اپنی مثال آپ تھی اور اسی لئے خاندان میں اس کامنفرد اور ممتاز مقام تھا، اس لاڈلی بیٹی کا نام تھا ’’آمنہ‘‘
عبدالمطلب کی نظر میں اپنے لختِ جگر عبداللہ کیلئے قبیلۂ قریش کی بہت سی خاندانی لڑکیاں تھیں، لیکن ان کی یہ دلی خواہش تھی کہ کسی طرح عبداللہ کا رشتہ وہب کی اس بیٹی آمنہ کے ساتھ طے ہوجائے۔ چنانچہ یہی تمنا دل میں لئے ہوئے ایک روز وہ وہب کے گھر پہنچے، مدعیٰ بیان کیا، اپنے بیٹے عبداللہ کیلئے آمنہ کا رشتہ مانگا جسے وہب نے بخوشی قبول کرلیا۔ یوں ہمارے پیارے نبی ﷺ کے گرامی قدر والدین رشتۂ زوجیت میں منسلک ہوگئے۔


اس شادی کے محض چند ہفتے بعد عبداللہ اپنے والد کی تجارت کے سلسلے میں ملکِ شام کی طرف جانے والے قافلے کے ہمراہ روانہ ہوگئے، جبکہ اس دوران ان کی اہلیہ محترمہ یعنی ’’آمنہ‘‘ ’’امانتدارِ نورِ محمدی‘‘ بن چکی تھیں۔
ملکِ شام سے واپسی کے موقع پر راستے میں عبداللہ بیمار پڑگئے، اور یہ قافلہ جب مدینہ کی حدود میں پہنچا تو ان کی طبیعت اس قدر ناساز ہوگئی کہ وہ مزید سفر جاری رکھنے کے قابل نہ رہے اور مدینہ میں ہی رک گئے۔(۱) جبکہ قافلہ انہیں چھوڑ کر منزل کی جانب روانہ ہوگیا۔ مکہ پہنچ کر قافلے والوں نے عبدالمطلب کو جب بیٹے کی بیماری کی اطلاع دی تو وہ انتہائی پریشان اور فکرمند ہوگئے اور فوراً اپنے بڑے بیٹے حارث کو عبداللہ کی خبرگیری کیلئے مدینہ کی طرف روانہ کیا، حارث انتہائی سرعت کے ساتھ جب یہ طویل سفر طے کرکے مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ عبداللہ کی وفات ہوچکی ہے اور انہیں مدینہ کے محلہ ’’دارالنابغہ‘‘ میں دفن کیا جاچکا ہے۔ اس پر حارث انتہائی رنجیدہ و افسردہ ہوئے، اور فوراً ہی مکہ کی طرف واپس لوٹ گئے، اور مکہ واپس پہنچنے پر انہوں نے اپنے والد عبدالمطلب کو یہ افسوسناک خبر سنائی۔


انتقال کے وقت جناب عبداللہ کی عمر صرف پچیس برس تھی، جبکہ سیدہ آمنہ کی عمر اس سے بھی کم تھی۔ یوں سیدہ آمنہ اپنے محبوب شوہر کی امانت لئے ہوئے عین عالمِ شباب میں بیوہ ہوگئیں جبکہ وہ امانت ابھی اس دنیامیں آئی بھی نہیں تھی۔
————————–—-


(۱) مدینہ میں عبداللہ نے خاندانِ ’’بنونجار‘‘ میں قیام کیا تھا جو کہ ان کی دادی کا خاندان تھا، بعد میں ہجرتِ مدینہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی اللہ کے حکم سے جب مسلسل چلتی چلی جارہی تھی، آخر ’’بنونجار‘‘ کے اسی محلے میں پہنچ کر خود بخود رک گئی تھی، آپ ﷺ نے وہیں قیام فرمایا تھا اور مسجدنبوی بھی اسی مقام پر تعمیر کی گئی تھی، آپ ﷺ کی مدینہ آمد کے موقع پر بنونجار ہی کی بچیاں نہایت و الہانہ انداز میں خیر مقدمی اشعار پڑھ رہی تھیں ’’طلع البدرعلینا…‘‘